عمر کار جہاں سے گزری ہے
عمر کار جہاں سے گزری ہے
گردش آسماں سے گزری ہے
دیکھتا ہوں شباب کو مڑ کر
زندگانی یہاں سے گزری ہے
دل کی روداد کیف کا عالم
داستاں داستاں سے گزری ہے
رات بے جام و خوشۂ انگور
اف نظر کہکشاں سے گزری ہے
زندگانئ کاہش امید
میری عمر رواں سے گزری ہے
یہ ہوا ہے کہ اب مری امید
دل میں ہے راہ جاں سے گزری ہے
بے خودی کے کرم سے اے کیفیؔ
خوب پیر مغاں سے گزری ہے