یوں تو سب دنیا میں دنیا ہر اک محفل میں ہے
یوں تو سب دنیا میں دنیا ہر اک محفل میں ہے
میں ہوں جس دنیا میں وہ دنیا تمہارے دل میں ہے
اس حقیقت سے بھی اے ارباب ساحل ہوشیار
ایک نا معلوم طوفان پردۂ ساحل میں ہے
بے خبر ہیں قافلے والے ابھی اس راز سے
منزل مقصود راہوں میں نہیں ہے دل میں ہے
میں نے ہی کچھ سوچ کر اس کو بتا دی راہ دوست
ورنہ اس منزل میں کب تھا عشق جس منزل میں ہے
تم مری جانب اگر دیکھو تو میں کچھ بھی نہیں
میں اگر دل کی طرف دیکھوں تو سب کچھ دل میں ہے
اب تو انجمؔ ساری دنیا گوش بر آواز ہے
کہہ بھی دو مرد خدا جو کچھ تمہارے دل میں ہے