مجھ کو نہ آزما ستم روزگار سے
مجھ کو نہ آزما ستم روزگار سے
میں تجھ سے دور ہوں نہ ترے اختیار سے
بدلیں گے اہل دل نہ کسی اعتبار سے
سرکار دشمنی سے نوازیں کہ پیار سے
یہ کیا کہ صرف رنگ گلستاں بدل دیا
ہم نے کچھ اور بھی تو کہا تھا بہار سے
یا رب یہ کس نہج پہ ہیں دل کے معاملات
ہم غیر مطمئن سے نہ وہ بیقرار سے
آخر خود اپنے سامنے آنا پڑا ہمیں
اکتا چکے تھے سلسلۂ انتظار سے
برسے ہیں کس کے خون کے بادل چمن چمن
لائی کہاں سے رنگ یہ پوچھو بہار سے
ہم رو لئے کہ سبز و گل میں تری رہے
ہنستے اگر تو آگ برستی بہار سے
بے شک ہے نا خدا کی محبت بھی ان کے ساتھ
انجمؔ خدا کا نام جو لیتے ہیں پیار سے