عشق چھپتا نہیں چھپانے سے

عشق چھپتا نہیں چھپانے سے
فائدہ کیا نظر بچانے سے


جب قفس میں چراغ جلتے ہیں
لو نکلتی ہے آشیانے سے


ترک امید اک بہانہ تھا
کر چکے یہ بھی سو بہانے سے


ہوشیار اے نگاہ وقت نواز
رخ بدلتے ہوئے زمانے سے


حاصل ذکر ہو تمہی لیکن
ابتدا ہے مرے فسانے سے


جاگنا تھا ہمیں بہ کار حیات
سوئے ہیں موت کے بہانے سے


ذکر محبوب فرض تھا انجمؔ
کہہ لئے شعر اس بہانے سے