یوں تو اخلاص میں اس کے کوئی دھوکا بھی نہیں

یوں تو اخلاص میں اس کے کوئی دھوکا بھی نہیں
کب بدل جائے مگر اس کا بھروسا بھی نہیں


کاٹ دی وقت نے زنجیر تعلق کی کڑی
اب مسافر کو کوئی روکنے والا بھی نہیں


پھر نہ یادوں کے کہیں بند دریچے کھل جائیں
مدتوں سے تری تصویر کو دیکھا بھی نہیں


جل گیا دھوپ میں یادوں کا خنک سایہ بھی
بے نوا دشت بلا میں کوئی ہم سا بھی نہیں


تھک گئے ہیں مرے ناکام ارادوں کے قدم
اب نگاہوں میں کوئی شوق کا صحرا بھی نہیں


آئنے عکس سے محروم نگہ منظر سے
اب یہ تنہائی کا عالم ہے کہ سایا بھی نہیں


اے مری عمر کے معذور گزرتے لمحو
تم نے جاتے ہوئے مڑ کر کبھی دیکھا بھی نہیں