کبھی کبھی تری چاہت پہ یہ گماں گزرا

کبھی کبھی تری چاہت پہ یہ گماں گزرا
کہ جیسے سر سے ستاروں کا سائباں گزرا


چراغ ایسے جلا کر بجھا گیا کوئی
تمام دید کا عالم دھواں دھواں گزرا


جنون شوق میں سجدوں کی آبرو بھی گئی
مجھے خبر نہ ہوئی کب وہ آستاں گزرا


وہ میرا وہم نظر تھا کہ تیرا عکس جمیل
وہ کون تھا کہ جو منظر کے درمیاں گزرا


بچھڑ کے شام رہی طول عمر تک گویا
ٹھہر گیا تھا جو لمحہ وہ پھر کہاں گزرا


مجھے تو چشم گریزاں بھی التفات لگی
ترے ستم پہ بھی ایثار کا گماں گزرا


چھپا کے سو گئی منہ دن میں رہ گزار فراق
جو شب ہوئی تو خیالوں کا کارواں گزرا