جو تری محفل سے ذوق خام لے کر آئے ہیں

جو تری محفل سے ذوق خام لے کر آئے ہیں
اپنے سر وہ خود ہی اک الزام لے کر آئے ہیں


زندگی کے نرم کاندھوں پر لیے پھرتے ہیں ہم
غم کا جو بار گراں انعام لے کر آئے ہیں


وقت کے ناداں پرندے زعم دانائی کے گرد
خوبصورت خواہشوں کے دام لے کر آئے ہیں


ایک منظر پر نظر ٹھہرے تو ٹھہرے کس طرح
ہم مزاج گردش ایام لے کر آئے ہیں


بے خودی اچھی تھی اب تو آگہی کی شکل میں
غم ہی غم نا واقف انجام لے کر آئے ہیں


پتھروں کے راستے سے اپنے شیشے کے قدم
سعئ لا حاصل کا اک پیغام لے کر آئے ہیں


بے عمل لوگوں سے جب پوچھو تو کہتے ہیں کی شانؔ
ہم ازل سے قسمت ناکام لے کر آئے ہیں