یوں سکونت کی طلب گار ہوئی جاتی ہے
یوں سکونت کی طلب گار ہوئی جاتی ہے
زندگی سایۂ دیوار ہوئی جاتی ہے
ہر ملاقات پہ کچھ اور بہکتی نظریں
کیا تری ذات پر اسرار ہوئی جاتی ہے
صبح کہتی ہے مرے ساتھ چلو آگے بڑھو
مت کہو زیست گراں بار ہوئی جاتی ہے
یوں سمائی ہے تری سانس مری سانسوں میں
ہر نفس گرمیٔ افکار ہوئی جاتی ہے
ڈگمگا کر ہی مری زیست سنبھلتی ہے ذرا
کون کہتا ہے کہ بے کار ہوئی جاتی ہے
روح تو جسم سے رشتے کو نبھانے کے لئے
موت سے برسر پیکار ہوئی جاتی ہے
جستجو اس کی اگر کوئی خطا ہے عادلؔ
یہ خطا مجھ سے لگاتار ہوئی جاتی ہے