ہم سے تو راہ و رسم ہے اغیار کی طرح

ہم سے تو راہ و رسم ہے اغیار کی طرح
دنیا پہ مہربان ہیں غم خوار کی طرح


کم مائیگی نہ پوچھ مری بزم غیر میں
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح


میں تاجران عشق کے بارے میں کیا کہوں
ان کا جنوں ہے گرمئ بازار کی طرح


خود ساختہ بتوں کو میں اب توڑ تاڑ کر
پوجوں گا بس اسی کو پرستار کی طرح


ذوق نظر کو آپ سمجھتے ہیں گر گناہ
نادم کھڑا ہوں میں بھی گنہ گار کی طرح


دیکھی ہے میں نے شاخ سے پتوں کی رخصتی
جانے نہ دوں گا اب تجھے ہر بار کی طرح


زاد سفر کی فکر نہ منزل کا ہو خیال
راہ طلب میں آؤ طلب گار کی طرح


چاہا ہے تم کو یوں کہ تمہیں بھی خبر نہ ہو
سوچا ہے تم کو ان کہے اشعار کی طرح


کہنے کو کوئی بند و سلاسل نہیں مگر
سب ہیں فصیل جاں میں گرفتار کی طرح


عادلؔ رخ نگار نہیں دل کا آئنہ
اقرار خاص ہوتا ہے انکار کی طرح