یوں نہ کوئی تری محفل میں پریشاں ہو جائے
یوں نہ کوئی تری محفل میں پریشاں ہو جائے
جیسے آواز صبا دشت میں حیراں ہو جائے
منتظر ہیں مری آہٹ کی بلائیں کتنی
ایک مشکل تو نہیں ہے کہ جو آساں ہو جائے
چاک دامن ہی زمانے سے نہیں ہوتا رفو
اور اگر سینہ کبھی چاک گریباں ہو جائے
پیچ در پیچ ہے یوں سلسلۂ زلف حیات
ہاتھ لگتے ہی جو کچھ اور بھی پیچاں ہو جائے
داغ دل جلنے لگے بجھ گئی ہر شمع طرب
یوں ہے تو یوں ہی سہی گھر میں چراغاں ہو جائے
مجھ پہ قدغن ہے کہ میں بزم میں خاموش رہوں
اور خموشی ہی جو رسوائی کا ساماں ہو جائے
نشتر شوق کے ہاتھوں گل صد برگ ہے دل
خوب ہو اب جو یہ نذر دم طوفاں ہو جائے
کیوں نہ پھر جلنے لگیں رشک سے ویرانہ و دشت
شہر جب دل کی نگاہوں میں بیاباں ہو جائے
دل کو سودا ہے رہے رنگ شفق پیش نظر
غم کو اک طور تو بہلانے کا ساماں ہو جائے
روشنی شام کی سن پائے نہ آوازۂ شب
مہر زرتاب کا آفاق سے پیماں ہو جائے
بات اس آنکھ میں پوشیدہ ہے وہ عرشؔ کہ جو
لب سے نکلے تو مرے سینے پہ پیکاں ہو جائے