یوں ہر اک درد کا سودا تو نہیں ہو سکتا

یوں ہر اک درد کا سودا تو نہیں ہو سکتا
میں ترے شہر میں رسوا تو نہیں ہو سکتا


میرے بس میں تو نہ تھا زخم پہ مرہم رکھنا
ہر کوئی شخص مسیحا تو نہیں ہو سکتا


میں ترے درد کو محسوس تو کر سکتا ہوں
میں ترے غم کا مداوا تو نہیں ہو سکتا


رات بے چاند منور تو نہیں ہو سکتی
گھر میں بے شمع اجالا تو نہیں ہو سکتا


حادثہ یہ ہے کہ پتھر نہیں انسان ہوں میں
دل مرا لالۂ صحرا تو نہیں ہو سکتا


تم بھی مانو گے کہ ہر بات کی حد ہوتی ہے
روز یوں وعدۂ فردا تو نہیں ہو سکتا