یہ زندگی کی ہار سے پہلے گزر گئی
یہ زندگی کی ہار سے پہلے گزر گئی
اک داستاں بہار سے پہلے گزر گئی
وہ بات اعتبار کے قابل نہیں رہی
جو بات اعتبار سے پہلے گزر گئی
آنکھوں سے دیکھتے رہے دل کی تباہیاں
دل کی لگی قرار سے پہلے گزر گئی
ہوتے ہیں آج تک بھی خزاں ہی کے تذکرے
آئی بھی اور بہار سے پہلے گزر گئی
زاہد کی پارسائی کا اب کچھ نہ پوچھئے
اک شے تھی جو خمار سے پہلے گزر گئی
کیسے کہوں کہ لوٹ کے آ جائے گی اے رازؔ
وہ زندگی جو پیار سے پہلے گزر گئی