یہ کالی گھٹا اٹھ کے مے خانوں کے سر آئی
یہ کالی گھٹا اٹھ کے مے خانوں کے سر آئی
گردش یہ زمانے کی پیمانوں کے سر آئی
گلشن پہ گری بجلی اور آگ لگی جس دم
یہ آگ جو پھیلی تو کاشانوں کے سر آئی
آتے ہی بہاروں کے پھر چاک ہوئے دامن
ہر صحرا نوردی یہ دیوانوں کے سر آئی
دے کر بھی وفا میں جاں الزام جفا آیا
رسوائی محبت میں نادانوں کے سر آئی
موجوں نے ڈبویا ہے ساحل پہ سفینے کو
قسمت کی برائی تھی طوفانوں کے سر آئی
اے رازؔ مجھے ملتی جو بھی تھی سزا ملتی
کیوں میری خطا سارے بیگانوں کے سر آئی