بتا یہ کون سی منزل ہے اے عمر رواں مجھ کو
بتا یہ کون سی منزل ہے اے عمر رواں مجھ کو
نظر آتا نہیں خود کا بھی اب سایہ جہاں مجھ کو
یہ ہے عزم جواں میرا نشیمن پھر بنا لوں گا
جلانے کا نہیں احساس اے برق تپاں مجھ کو
بچھڑ کر کارواں سے میں بھٹکتا ہی رہا ہر سو
نظر آئی نہ منزل اور نہ گرد کارواں مجھ کو
مسیحا زہر دے دے یا علاج درد و غم کر دے
کبھی لینے نہ دے گا چین یہ درد نہاں مجھ کو
عزائم لے کے اٹھا ہوں اٹل میرے ارادے ہیں
کبھی نیچا دکھا سکتا نہیں تو آسماں مجھ کو
جہاں شرمندۂ تعبیر ہے فطرت زمانے کی
خلوص آدمیت رازؔ لائی ہے وہاں مجھ کو