پہنا بھی کچھ زمانے نے ایسا لباس ہے

پہنا بھی کچھ زمانے نے ایسا لباس ہے
ماحول پہ زمانے کے غیرت اداس ہے


وہ بھول جائیں ہم کو تو ہے ان کا ظرف یہ
ہم کو تو اب بھی ان کی محبت کا پاس ہے


چہرے سے اپنے زلف ہٹا دیجئے ذرا
بیتاب دل ہے دید کی آنکھوں کو پیاس ہے


اب تو تمہارے غم کے سہارے ہے زندگی
ہم کو خوشی زمانے کی آئی نہ راس ہے


دل توڑنے سے پہلے ذرا یہ بھی سوچئے
ہر لمحہ موت زندگی کے آس پاس ہے


سمجھے گا رازؔ کون یہاں تیرے درد کو
کس کی نگاہ اتنی قیافہ شناس ہے