یہ تو نہیں کہ بادیہ پیما نہ آئے گا
یہ تو نہیں کہ بادیہ پیما نہ آئے گا
اے دشت آرزو کوئی ہم سا نہ آئے گا
چلنا نصیب زیست ہے یوں ہی چلے چلو
اس راستے میں شہر تمنا نہ آئے گا
راہ وفا میں قطرۂ شبنم بھی ہے بہت
جس سے بجھے گی پیاس وہ دریا نہ آئے گا
خود ہو سکے تو اپنے اندھیرے اجال لو
اب کوئی صاحب ید بیضا نہ آئے گا
اے اہل دل خموش کہ یہ جائے صبر ہے
دکھ تو یونہی رہیں گے مسیحا نہ آئے گا
گاہے وفور شوق تو گاہے ہجوم یاس
سب کچھ تو آئے گا ہمیں جینا نہ آئے گا
بیٹھے رہیں سحرؔ یونہی دیوار و در لیے
اپنا جسے کہیں کوئی ایسا نہ آئے گا