ضمیر نوع انسانی کے دن ہیں
ضمیر نوع انسانی کے دن ہیں
صداقت کی جہاں بانی کے دن ہیں
طلسم صبح کاذب خود ہی ٹوٹا
طلوع صبح نورانی کے دن ہیں
جمود فکر توڑا پھر بشر نے
عروج ذہن انسانی کے دن ہیں
حکومت وقف استبداد کیوں ہو
اسی نکتے کی ارزانی کے دن ہیں
ہوئے بے دست و پا ظالم پرانے
ستم کی خانہ ویرانی کے دن ہیں
کھلی ہر فرد و ہر ملت کی قسمت
کہ آزادی کی سلطانی کے دن ہیں
سحرؔ واجب ہے تعظیم تغیر
یہ مانا ہم نے حیرانی کے دن ہیں