یہ ریت قیس کے نقش قدم پہ چلتی رہی

یہ ریت قیس کے نقش قدم پہ چلتی رہی
سمندروں کے خد و خال کو بدلتی رہی


کسی کے قدموں سے رستے لپٹ کے رویا کیے
کسی کی موت پہ خود موت ہاتھ ملتی رہی


اسے کنارے کا کنکر سمجھ کے پاؤں نہ رکھ
یہ آرزو میرے دل کے صدف میں پلتی رہی


غرور تشنہ دہانی تری بقا کی قسم
ندی ہمارے لبوں کی طرف اچھلتی رہی


جمی تھی برف رویوں کی سرخ آنکھوں پر
درون جسم کوئی آگ تھی مچلتی رہی


تماش گاہ زمانہ میں زندگی اپنی
سنبھل کے گرتی رہی گر کے پھر سنبھلتی رہی


یہ کون آئنہ پیکر یہاں سے گزرا ہے
کہ جس کی گرد سفر پر نظر پھسلتی رہی