میرے خوش رہنے سے اس کو کچھ پریشانی نہ تھی

میرے خوش رہنے سے اس کو کچھ پریشانی نہ تھی
اس کو زندہ دیکھ کر مجھ کو بھی حیرانی نہ تھی


دو تھکے ہارے دلوں نے اک ندی پر رات کی
تھی مگر جذبوں میں وہ پہلی سی طغیانی نہ تھی


رک گیا تھا وہ مرے حجرے میں جانے کس لیے
آسماں شفاف تھا اور رات طوفانی نہ تھی


تیغ زن کو وار سے پہچان لیتا تھا ہدف
لفظ کی ایجاد سے پہلے رجز خوانی نہ تھی


رفتہ رفتہ قہقہوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے
ہونٹ تھے سرسبز لیکن وہ ہنسی دھانی نہ تھی


ایک سے دیوار و در کو دیکھنا تھا عمر بھر
اپنی آنکھوں کے مقدر میں جہاں بانی نہ تھی


وقت مہنگا ہو رہا تھا لفظ بھی کم یاب تھے
شاعروں کو خواب بننے میں بھی آسانی نہ تھی