کبھی تو خواب کبھی رت جگے سے باتیں کیں

کبھی تو خواب کبھی رت جگے سے باتیں کیں
ترے گمان میں ہم نے دیے سے باتیں کیں


ردائے شب پہ نئے طرز سے وصال لکھا
بچھڑنے والوں نے اک دوسرے سے باتیں کیں


رہی نہ یاروں سے امید غم گساری کی
گھر آئے گریہ کیا آئنے سے باتیں کیں


عجب مذاق ہے ہم نے خدا کے دھوکے میں
تمام عمر کسی وسوسے سے باتیں کیں


جناب شیخ سے اک بار سامنا ہو جائے
کرے گا یاد کسی سرپھرے سے باتیں کیں


بہت ادق تھیں عبارات زندگانی کی
ذرا سی دیر رکے حاشیے سے باتیں کیں


ہمارے ہونٹوں پہ پر لطف قہقہے بکھرے
ہماری آنکھوں نے کتنے مزے سے باتیں کیں


چلے تو چلتے گئے ہاتھ تھام کر چپ چاپ
جدا ہوئے تو بہت راستے سے باتیں کیں