اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں
اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں
برف زاروں میں اتر آیا ہوں جلتا ہوا میں
اس نے پیمانے کو آنکھوں کے برابر رکھا
اس کو اچھا نہیں لگتا تھا سنبھلتا ہوا میں
رات کے پچھلے پہر چاند سے کچھ کم تو نہ تھا
دن کی صورت تری بانہوں سے نکلتا ہوا میں
تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں
میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں
وہ کبھی دھوپ نظر آئے کبھی دھند لگے
دیکھتا ہوں اسے ہر رنگ بدلتا ہوا میں