یہ قول عقل کا ہے مرا فیصلہ نہیں
یہ قول عقل کا ہے مرا فیصلہ نہیں
محتاج ہو ثبوت کا ہو وہ خدا نہیں
کیوں راز دار دل پہ بھروسہ کیا نہیں
آئینہ دیکھتا ہے مگر بولتا نہیں
روندے گئے ہیں پھول بھی کانٹوں کے ساتھ ساتھ
گلشن میں انقلاب سے کوئی بچا نہیں
بہتے نہیں ہیں وقت کی رفتار دیکھ کر
ہم خود برے بنے ہیں زمانہ برا نہیں
گمراہ کر کے چھوڑے گا یہ شوق رہروی
ہم اس طرف چلے ہیں جدھر راستہ نہیں
ہے جرم سچ جو پوچھو تو یہ ہے پتے کی بات
ان کا پتہ ملا ہے تو اپنا پتہ نہیں