ساقی یہ تیرے بس میں ہے دے جام یا نہ دے

ساقی یہ تیرے بس میں ہے دے جام یا نہ دے
جھوٹا مگر کسی کو کبھی آسرا نہ دے


سوز فراق کشمکش مدعا نہ دے
دشمن کو بھی کسی کی محبت خدا نہ دے


شاید کہ سو گیا ہے جنوں پھر جگا نہ دے
زنجیر پا کو خواب رہائی ہلا نہ دے


کرنا پڑے ضمیر کے برعکس بندگی
مجبوریوں کسی کو ضرورت بنا نہ دے


کیا کیا دکھا رہا ہے محبت کے سبز باغ
مٹی میں دل کو جوش جوانی ملا نہ دے


گم ہو کے میں نے سیکھ لیا خوب یہ اصول
جس کو خبر ملے وہ تمہارا پتا نہ دے


اے جرمؔ درد و عشق کا ملنا نہیں ہے کھیل
جب تک کسی بشر کو یہ نعمت خدا نہ دے