محبت کشمکش میں رہ گئی سر نہاں بن کر

محبت کشمکش میں رہ گئی سر نہاں بن کر
مرے دل کا یقیں ہو کر ترے دل کا گماں بن کر


کرے شکر محبت میرا ہر رویاں زباں بن کر
اگر تم بیچ میں آ جاؤ شرط امتحاں بن کر


یہ کس کی راہ پر سر دے رہے ہیں محسن الفت
اجل خدمت کو آئی ہے حیات‌‌ جاوداں بن کر


جھٹکتا جائے گا ان کو زمانہ اپنے دامن سے
جو کچھ بھی رہ گئے پیچھے غبار کارواں بن کر


زمانے کی ہوا کا رخ بدل جانا مقدر ہے
یہی تنکے قفس ہوں گے بساط آشیاں بن کر


نہ ہو جب ٹھوکریں کھانے پہ بھی احساس بیداری
نہ ٹوٹیں دل پہ کیوں ناکامیاں برق تپاں بن کر


نہیں جب نقش اول کی طرح رنگ بقا تجھ میں
ضرورت کیا ہے رہنے کی نشانہ لے نشاں بن کر


فضا پر کیف بن کر چھا گئی غنچوں کی رعنائی
چمن میں کون آتا ہے بہار بے خزاں بن کر


زمیں کی طرح جب حاصل ہے قدرت بردباری کی
رہوں اے جرمؔ کیوں گردش میں ناحق آسماں بن کر