یہ نظارہ نہ دیکھا تھا فراز بام سے پہلے
یہ نظارہ نہ دیکھا تھا فراز بام سے پہلے
نکلتا ہے کوئی سورج غروب شام سے پہلے
اسی کے نام کر ڈالے ہیں میں نے رت جگے اپنے
کسی کا نام لیتا ہے جو میرے نام سے پہلے
تمہارے آتشیں لہجے سے ہم خائف نہیں لیکن
ہماری بات تو سن لو ذرا آرام سے پہلے
سکوت شہر خاموشاں بھی جس پر رشک فرمائے
کچھ ایسی کیفیت ہوتی ہے ہر کہرام سے پہلے
رہین آب و دانہ ہی سہی آوارگی اپنی
گھروں کو لوٹ آتے ہیں پرندے شام سے پہلے
بہ ہر صورت انہیں رنج اسیری تو اٹھانا ہے
نظر دانے پہ ہے پرواز جن کی دام سے پہلے