اس طرح مرجھا گئے کچھ پھول چہرے رات کو
اس طرح مرجھا گئے کچھ پھول چہرے رات کو
دھوپ آنگن میں اتر آئی ہو جیسے رات کو
عمر بھر سورج بھی جن کی دید سے قاصر رہے
ان حیا داروں کے اٹھتے ہیں جنازے رات کو
زیست کا سرمایہ ہے یادیں انہی لمحات کی
ماؤں سے جب لوریاں سنتے تھے بچے رات کو
بن گئے ہیں رہزنوں کے واسطے جائے اماں
اور مسافر کے لئے ہیں موت رستے رات کو
اس طرح اب تو گزرتی ہے مری عمر رواں
کھانستے ہیں جس طرح پرواز بوڑھے رات کو