قمر صدیقی کے تمام مواد

29 غزل (Ghazal)

    ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا

    ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا جو تھا خوابوں کا زیور کھو گیا ہے کیا سبھی چہروں پہ ہے کیوں بد حواسی اب سبھی کا جیسے یاں کچھ کھو گیا ہے کیا کوئی فریاد اب سنتا نہیں وہ بھی کہیں پر چیف جسٹس ہو گیا ہے کیا یہ کیوں تالاب دریا اور سمندر ہیں یہاں پر کوئی آ کر رو گیا ہے کیا قمرؔ کا آئنے ...

    مزید پڑھیے

    کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا

    کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا ایک بس اپنا علم اور اپنا پرچم دیکھنا اس طلسم عصر حاضر سے جب آنکھیں جل اٹھیں دور جلتا اک چراغ اسم اعظم دیکھنا منتظر ہیں راستوں پر حادثے چلتے ہوئے کھول رکھنا اپنی آنکھیں اور کم کم دیکھنا چاند تارے اور جگنو اور مرا رنگ ہنر یعنی اس کو یاد کرنا ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے

    میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے زمین ختم ہوئی اب ہے آسماں آگے ہر ایک موڑ پہ میں پوچھتا ہوں اس کا پتہ ہر ایک شخص یہ کہتا ہے بس وہاں آگے بچھڑتے جاتے ہیں احباب خواب کی صورت گزرتا جاتا ہے یادوں کا کارواں آگے بس اگلے موڑ تلک ہی یہ صاف منظر ہے پھر اس کے بعد وہی بے کراں دھواں آگے

    مزید پڑھیے

    سوتے سے وہ جاگ پڑا ہے

    سوتے سے وہ جاگ پڑا ہے خوابوں کا نقصان ہوا ہے ہم بھی گھر میں آ بیٹھے ہیں رستہ بھی سنسان پڑا ہے بچے پب جی کھیل رہے ہیں بوڑھا برگد دیکھ رہا ہے پارک کی سونی بینچوں پر شام کا سایہ پھیل رہا ہے تنہائی کی گہری دھوپ میں تیری یاد کا پھول کھلا ہے اندر آ کر دیکھ کبھی تو یاں پورا اک شہر بسا ...

    مزید پڑھیے

    پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر دیکھے گا کون

    پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر دیکھے گا کون اے گمان خوش نظر اب کے ادھر دیکھے گا کون چشم پر نم سوز دل اپنی جگہ لیکن یہاں موسم سر سبز میں رقص شرر دیکھے گا کون اس صدی سے اس صدی تک رشتے ناطے دوستی پیچھے کیا کیا رہ گیا ہے لوٹ کر دیکھے گا کون درہم و دینار ہیں انعام ہجرت کا مگر گھر سے ...

    مزید پڑھیے

تمام