یہ کیا شکوہ کہ وہ اپنا نہیں ہے
یہ کیا شکوہ کہ وہ اپنا نہیں ہے
محبت خون کا رشتہ نہیں ہے
جو میں نے کہہ دیا ہو کر رہے گا
مرا مشرب غم فردا نہیں ہے
بہت پہلے میں اس کو پڑھ چکا ہوں
میری قسمت میں جو لکھا نہیں ہے
گھٹا رہتا ہے دل میں کچھ دھواں سا
یہ بادل آج تک برسا نہیں ہے
جوانی جتنے منہ اتنی ہی باتیں
محبت آج بھی رسوا نہیں ہے
وفا میں راحتیں کیا ڈھونڈتے ہو
وفا دیوار ہے سایہ نہیں ہے
یہ بات اہل نظر کب جانتے ہیں
اکیلا تو ہے دل تنہا نہیں ہے
سہی اپنے نہ بن پائے کسی کے
کوئی اپنا نہ ہو ایسا نہیں ہے
مزاج یار سے نالاں ہو انجمؔ
تمہیں شاید غزل کہنا نہیں ہے