یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
یہ حقیقت ہے کہ وہ شخص وفادار نہ تھا
ہاں مگر میں بھی وفا کرنے کو تیار نہ تھا
عرصۂ ہجر بڑا تھا پہ یہ دشوار نہ تھا
دل تو خود ہی مرا آمادۂ دیدار نہ تھا
شہر بے حس میں اسیران ہوس سب تھے مگر
اے محبت ترا کوئی بھی گرفتار نہ تھا
میرا گریہ مرے آنسو مری وحشت کے سوا
ہجر کی رات کوئی میرا مددگار نہ تھا
جانے کیوں کر اسے لمحوں میں کیا میں نے عبور
راستہ یوں تو محبت ترا ہموار نہ تھا
میں نے کل رات بہت حق کی طرف داری کی
صبح دیکھا تو کوئی میرا طرف دار نہ تھا
یہ غزل ساری ہے تنویرؔ مرے خواب کی دین
جب کہی ہے یہ غزل میں نے میں بیدار نہ تھا