منزل قریب راہ بھی آساں ہو ڈر نہ ہو
منزل قریب راہ بھی آساں ہو ڈر نہ ہو
کیا لطف اس سفر میں کہ جو پر خطر نہ ہو
میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اس کی نگاہ میں
کوئی بھی شخص میرے سوا معتبر نہ ہو
میں ہوں سیاہیٔ شب ہجراں میں پر سکوں
اے وقت تھم خیال رہے اب سحر نہ ہو
اک سمت بے وفائی تری اک طرف ہے تو
دل کشمکش میں ہے کہ کدھر ہو کدھر نہ ہو
تیری دعا کہ ترک تعلق ہو عنقریب
میری دعا کہ تیری دعا میں اثر نہ ہو
دور بہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے باد خزاں کا گزر نہ ہو
کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار کے
ہو انتظار یار مگر اس قدر نہ ہو
سینچا ہے اس کو میرؔ نے غالبؔ نے عمر بھر
ممکن نہیں زمین سخن بارور نہ ہو
تنویرؔ اور مشق سخن کر نہ ہار مان
اہل سخن میں اب بھی اگر نامور نہ ہو