نہ ماننا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
نہ ماننا تھا مری بات اور نہ مانی تھی
کہ دل نے پہلے سے ہی خودکشی کی ٹھانی تھی
یہ بہہ رہے تھے کسی بے وفا کی فرقت میں
اے چشم یہ ترے اشکوں کی رائیگانی تھی
نہ کوئی رخت سفر تھا نہ ہم سفر کوئی
میان کرب سفر میری نوحہ خوانی تھی
تمام وقت ہی میں شاعری کو دے دیتا
شکم کی آگ بھی مجھ کو مگر بجھانی تھی
وہ لے رہا تھا ابھی مجھ سے انتقام مگر
میں جانتا تھا عداوت بڑی پرانی تھی
مجھے کیا دل دنیا پرست نے برباد
وگرنہ میرے مقدر میں کامرانی تھی
اسی لیے میں اتر آیا بے وفائی پر
وفا جو وعدہ فراموش کو سکھانی تھی
وہ جا بسا ہے محبت کے دشت میں تنویرؔ
دیار حسن میں کب دل کی قدردانی تھی