سفر طویل ہے اور راہبر کوئی بھی نہیں

سفر طویل ہے اور راہبر کوئی بھی نہیں
ہمارے ساتھ یہاں ہم سفر کوئی بھی نہیں


تمہارے ہجر میں دن رات میں تڑپتا ہوں
پہ میرے حال کی تم کو خبر کوئی بھی نہیں


تمہارا دل ہے یا پتھر یہ مجھ کو بتلا دو
کہ میری آہ کا اس پر اثر کوئی بھی نہیں


یہ درد ہجر ہے اس کی وصال یار سوا
زمانہ بھر میں دوا کارگر کوئی بھی نہیں


جو سنگ دل کو تیرے موم کر دے پگھلا کر
ہمارے ہاتھ میں ایسا ہنر کوئی بھی نہیں


یہ دشت عشق ہے تنویرؔ بس یہ یاد رہے
کہ سایہ دار یہاں پر شجر کوئی بھی نہیں