یہ بھی موسم عجیب موسم ہے

یہ بھی موسم عجیب موسم ہے
اس سے بچھڑے ہیں اور دکھ کم ہے


مستقل اس کو یاد کرتا ہوں
مستقل ایک سا ہی عالم ہے


ایک چہرہ ہے جس کو دیکھتا ہوں
ایک آواز ہے جو پیہم ہے


تم بھی اس کی نشانیاں سن لو
لہجہ خوشبو ہے بات شبنم ہے


چیختا ہوں اسے بلانے کو
اور آواز پھر بھی مدھم ہے


سوچتا ہوں کہ میں نہیں روتا
اور مری آنکھ میں بڑا نم ہے


ویسے ہی راستے ہیں سارے مگر
ساتھ چلتا تھا جو وہی کم ہے


کوئی ملتا نہیں محبت کو
اک عجب فرقتوں کا عالم ہے


مجھ سے یہ غم سہا نہیں جاتا
غالباً مجھ کو اب بہت غم ہے