ہے زمانے کا کاروبار وہی

ہے زمانے کا کاروبار وہی
روش بزم روزگار وہی


تم گئے ہو تو کچھ نہیں بدلا
پھول ویسے ہی ہیں بہار وہی


روز چلتا ہوں تم نہیں ہوتے
پیڑ دو رویہ رہ گزار وہی


منزل شوق بھی نہیں بدلی
رہ گزر بھی وہی غبار وہی


ہاں کوئی داغ بھی نیا نہ ملا
حسرتوں کا بھی ہے شمار وہی


ہاں وہ صحرا بھی کچھ نہیں بدلا
گرم سورج وہی ہے خار وہی


اب ہے یہ حال بس کہ جیتے ہیں
زندہ رہنے کا ہے شعار وہی


دیکھتی سب ہیں اور آنکھوں میں
خواب ویسے ہی اشک بار وہی