تصویر دوست فکر مجسم بنی رہی
تصویر دوست فکر مجسم بنی رہی
میں اس سے بولتا رہا وہ سوچتی رہی
کل شب تصورات کی محفل سجی رہی
جب تک تمہارا ذکر رہا چاندنی رہی
شاید سمجھ رہی تھی اسے بھی کوئی چراغ
جگنو کے پیچھے تیز ہوا دوڑتی رہی
پانی کا انتظام تھا غیروں کے ہاتھ میں
یوں بھی گھروں میں آگ ہمارے لگی رہی
پوری ہوئی نہ سر کو کٹانے کی آرزو
کاندھوں پہ میرے دل کی تمنا رکی رہی
پھر اگلی جنگ لڑنا مگر اس شکست میں
یہ سوچنا پڑے گا کہاں کیا کمی رہی
تھی ان کو صرف ایک نظر دیکھنے کی بات
جو حرف آخری کی طرح آخری رہی
الفت میں ہار جیت کا لگتا نہیں پتہ
وہ شرط جو لگی بھی نہیں تھی لگی رہی
صولتؔ کمی تمہاری اگر ہے تو مان لو
کب تک یہی کہو گے کہ قسمت بری رہی