ان سے کرم کی رکھ امید ان کی عطا سے پیار کر

ان سے کرم کی رکھ امید ان کی عطا سے پیار کر
اے دل مبتلائے‌ غم غم کو بھی خوش گوار کر


حسن‌‌ یقین عاشقی اتنا تو پائیدار کر
خود پر بھی اعتماد رکھ ان پر بھی اعتبار کر


دل میں جو میرے زخم میں ان کا نہ اب شمار کر
سینۂ داغدار کو اور بھی داغدار کر


شورش‌‌ آگہی کے ساتھ حسن شعور شرط ہے
ذوق جنوں نواز اب اور نہ شرمسار کر


تجھ سے ہنوز ہے نہاں فکر کا اک نیا جہاں
عزم و عمل سے زیست کے حسن کو آشکار کر


حاصل کائنات تھے بس وہی زندگی کے دن
ہم تیری بارگاہ میں آئے ہیں جو گزار کر


سینۂ تیرگی سے ہی پھوٹے گی ایک موج نور
منتظر حیات نو صبح کا انتظار کر


درد حیات درد دل درد فراق درد غم
یہ ہیں متاع لا زوال ان سے عزیزؔ پیار کر