یوں تو ہے دہر میں ہر درد کا ہر غم کا علاج

یوں تو ہے دہر میں ہر درد کا ہر غم کا علاج
کاش ہو جائے مری کاہش پیہم کا علاج


امن ساحل ہے جو طغیانی برہم کا علاج
پھر تو مشکل نہیں انساں کے کسی غم کا علاج


زندگی چھیننے والے تری قدرت کی قسم
تیرے ہاتھوں میں تھا بیمار شب غم کا علاج


ہاں وہی پھول جو شبنم کی بدولت مہکے
ان سے بھی ہو نہ سکا گریۂ شبنم کا علاج


جب ستایا غم دوراں نے تو اتنی پی لی
ایک عالم سے کیا دوسرے عالم کا علاج


پینے والو ابھی کچھ دیر میرے ساتھ رہو
آپ کر سکتے ہیں کچھ دیدۂ پر نم کا علاج


اب تو احساس مجھے بھی یہی ہوتا ہے عزیزؔ
میرے اشعار میں مضمر ہے مرے غم کا علاج