یہ ابر و باد یہ طوفان یہ اندھیری رات
یہ ابر و باد یہ طوفان یہ اندھیری رات
اب ایک موڑ پہ آ جا رفیق راہ حیات
ہوا کے دوش پہ موج اجل خراماں ہے
مریض دہر پہ طاری ہیں نزع کے لمحات
حیات ایک تخیل نہیں حقیقت ہے
مجھے بتائی ہے آدم کے عزم نے یہ بات
مرے رفیق محبت کے دن بھی آئیں گے
وہی حسین سویرا وہی کنواری رات
وہی گلاب کے موسم وہی شراب کے دور
وہی شریر گھٹائیں وہی بھری برسات
سنائی جائے گی کوئل کو ہم نوا کر کے
حسین پھولوں کو بھونروں کی ایک راز کی بات
غزل کی ڈال سجا کر چمن کی دلہن کو
سلامؔ نذر کرے گا سہاگ کی سوغات