رقاصہ

تم نہیں جانتے ہو مجھے
اس سے حاصل ہی کیا ہے مگر
تمہیں جان کر اپنی پہچان کھوئے ہوئے
میں تمہارے اشاروں پہ رقصاں رہی
ایڑیوں میں کئی بار گھنگرو کنواں کھود کر مر گئے
رقص کا ضابطہ ہے کہ تھکنا نہیں ہے
جہاں تک طبلچی کی تھاپیں پڑیں
طبلہ بجتا رہے رقص چلتا رہے
میں رقاصہ ہوں
رقص پیشہ ہے میرا
مگر تم تماشائی ہو کر تماشے پہ ہی معتکف کیوں نہیں ہو
مرا ہر تماشائی کی آنکھ میں خواب بن کر اترنا
ہر اک گود میں حادثہ بن کے گرنا
تمناؤں کو تابناکی سے معمور کرنا
کہیں پر بکھرنا کہیں پر سمٹنا
سمٹنا بکھرنا بکھرنا سمٹنا
قدم تھرتھرا کے
اچانک سے رک جانا لکھا ہوا ہے
مجھے رقص میں محو ہی مت سمجھنا
میں پسلی کی تخلیق ہوں
آڑے ترچھے سبھی زاویے خوب پہچانتی ہوں
رقص پیشہ ہے میرا
میں سب جانتی ہوں