یہ آنکھ بھی یہ خواب بھی یہ رات اسی کی
یہ آنکھ بھی یہ خواب بھی یہ رات اسی کی
ہر بات پہ یاد آئی ہے ہر بات اسی کی
جگنو سے چمکتے ہیں اسی یاد کے ہر دم
آنکھوں میں لئے پھرتے ہیں سوغات اسی کی
ہر شعلے کے پیچھے ہے اسی آگ کی صورت
ہر بات کے پردے میں حکایات اسی کی
پھر وحشت دل ڈھونڈھتی پھرتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ غم پہ مدارات اسی کی
آئینے کا اور عکس کا رشتہ مرا اس کا
اب جیت مری اس کی ہے اور مات اسی کی
لفظوں میں سجاتے ہیں اسی حسن کی خوشبو
آنکھوں میں چھپاتے ہیں شکایات اسی کی
کیا کیجیے اچھی ہمیں لگتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ دل میں ہر اک بات اسی کی
جس شخص نے منظر کو نئے پھول دئے تھے
ہیں دور خزاں پر بھی عنایات اسی کی
آتا ہے نظر مجمع احباب میں عادلؔ
لاکھوں میں اکیلی ہے مگر ذات اسی کی