یک بہ یک جھوم اٹھا نفس کو غارت کر کے
یک بہ یک جھوم اٹھا نفس کو غارت کر کے
ایک درویش ترے ہاتھ پہ بیعت کر کے
میں ترا نام بھی لیتا نہیں آسانی میں
کیا نکلتا کسی مشکل سے تلاوت کر کے
دل نہ ہو در پہ لگائی ہوئی گھنٹی ہو میاں
بھاگ جاتے ہیں سبھی لوگ شرارت کر کے
یہ جو تاجر ہیں انہیں دام زیادہ ہی بتا
یہ خریدیں گے محبت بھی رعایت کر کے
کس نے سمجھا ہے ابلتے ہوئے سورج کا فسوں
کون ڈوبا ہے اندھیرے میں سخاوت کر کے
تیری آنکھیں بھی جلیں دل بھی سیہ فام ہوا
کیا ملا تجھ کو محبت میں خیانت کر کے
ہر طرف شور ہے وحشت ہے پریشانی ہے
کیا ملے گا تجھے ایسے میں قیامت کر کے