گھپ اندھیرا تھا جا بجا مجھ میں

گھپ اندھیرا تھا جا بجا مجھ میں
رات رہتی تھی با خدا مجھ میں


میں تو سر کو جھکائے بیٹھا تھا
عشق نے سر اٹھا لیا مجھ میں


غم یہاں سے نکل نہیں پایا
چار جانب تھا حاشیہ مجھ میں


میرا ہی روپ دھار کر کوئی
دیر تک چیختا رہا مجھ میں


جانے کس کس نے رات کاٹی یہاں
جانے کس کس کو تو ملا مجھ میں


چھت گرائی تو راستہ نکلا
پھر تماشا سا لگ گیا مجھ میں


میری تہ تک پہنچ نہیں پایا
ایک پتھر جو گر پڑا مجھ میں


تیری آواز گونجتی تھی کبھی
اب تو رہتا ہے بس خلا مجھ میں


سارے منظر چھپا دیے اس نے
وہ جو تیرا غبار تھا مجھ میں


پھل ہی پھل تھے یہاں وہاں محسنؔ
اک شجر تھا جھکا ہوا مجھ میں