اک در پہ سر جھکا لیا راہیں بدل گئیں

اک در پہ سر جھکا لیا راہیں بدل گئیں
جتنی بلائیں سر پہ تھیں ساری ہی ٹل گئیں


اک ہاتھ ہم نے چوم کے آنکھوں پہ کیا رکھا
موسم کی ساری شدتیں نرمی میں ڈھل گئیں


شک کی لگی جو آگ تو اٹھنے لگا دھواں
سب رسیاں یقین کی لمحوں میں جل گئیں


محنت کی بوند بوند سے کرتا رہا تھا تر
یوں بیٹیاں غریب کی سوکھی پہ پل گئیں


اب کے ملو تو ہاتھ کی دوری پہ ہی رہو
سوچیں ہماری دید سے آگے نکل گئیں