یہی تو دکھ ہے زمیں آسماں بنا کر بھی
یہی تو دکھ ہے زمیں آسماں بنا کر بھی
میں در بہ در ہوں خود اپنا جہاں بنا کر بھی
اگر یہ سچ ہے کہ ہر شے یہاں پہ فانی ہے
تو کیا کروں گا میں کچھ جاوداں بنا کر بھی
مصر ہے اس پہ مجھے رائیگاں نہیں ہونا
وہ زندگی کو مری رائیگاں بنا کر بھی
کسے دکھاؤں جو تاریکیاں سمیٹی ہیں
قدم قدم پہ نئی کہکشاں بنا کر بھی
کچھ اور لوگ مگر بعد ازاں اسے یاد آئے
وہ خوش نہیں تھا ہمیں داستاں بنا کر بھی
کھلا مسافت ہستی میں کم نہیں ہوتے
سفر کے رنج و الم کارواں بنا کر بھی