یہی سوچتے ہیں اکثر کہاں آ گئے خوشی میں
یہی سوچتے ہیں اکثر کہاں آ گئے خوشی میں
کہ یہ دن گزر رہے ہیں جو حصار بے خودی میں
یہ سفر ہے آرزو کا یہاں دھوپ چھاؤں بھی ہے
کبھی دل میں روشنی ہے کبھی دل ہے روشنی میں
وہی دیں گے اب اجالا ترے قلب بے خبر کو
جو چراغ جل اٹھے ہیں مری شام زندگی میں
مجھے اعتبار الفت تمہیں ہے یقین میرا
کوئی مل سکا نہ تم سا مجھے ساری زندگی میں
ترے ساتھ ہے کچھ ایسا مری جرأتوں کا عالم
کوئی ڈر ہے زندگی میں نہ ہے خوف کوئی جی میں
ترا نام پڑھ رہی ہوں ترا نام لکھ رہی ہوں
میں تجھے سمو رہی ہوں مرے ذوق شاعری میں
مری ذات کو سجانے کوئی آئنہ نہ دینا
مرا حسن جلوہ گر ہے ابھی تاجؔ سادگی میں