مری حیات ابھی جس کے انتظار میں ہے
مری حیات ابھی جس کے انتظار میں ہے
وہ لمحہ کس کے خدا جانے اختیار میں ہے
یہ پھول کانٹے بہت ہی عزیز ہیں ہم کو
ہمارے ماضی کی خوشبو اسی بہار میں ہیں
کرے گا کیسے کوئی منزلوں کا اندازہ
ابھی تو کارواں خود پردۂ غبار میں ہے
نہ جانے کب یہ قفس زندگی کا ٹوٹے گا
ابھی حیات مری درد کے حصار میں ہے
زمانہ ٹوکتا جاتا ہے اس طرح مجھ کو
کہ جیسے ترک وفا میرے اختیار میں ہے
عجیب تاجؔ یہاں نظم زندگانی ہے
ہے گلستاں میں کوئی کوئی لالہ زار میں ہے