مہاجر ہیں رہنے کو گھر مانگتے ہیں
مہاجر ہیں رہنے کو گھر مانگتے ہیں
یہ کیا ہم سے اہل سفر مانگتے ہیں
بہت پی چکے ہیں شفق کا لہو ہم
نیا ایک جام سحر مانگتے ہیں
ترا نقش پا گر نہیں ہے تو کیا غم
حوادث مری رہ گزر مانگتے ہیں
غنیمت ہیں ٹوٹے ہوئے آئنے بھی
یہ پتھر تو دست ہنر مانگتے ہیں
ہے زندہ قفس میں چمن کی تمنا
عزائم مرے بال و پر مانگتے ہیں
نظاروں کے پردے اٹھا کر تو دیکھو
نظارے بھی حسن نظر مانگتے ہیں
سبق دے رہے تھے جو ضبط الم کا
وہی تاجؔ سوز جگر مانگتے ہیں