یہی نہیں کہ مرا دل ہی میرے بس میں نہ تھا

یہی نہیں کہ مرا دل ہی میرے بس میں نہ تھا
جو تو ملا تو میں خود اپنی دسترس میں نہ تھا


بہ نام عہد رفاقت بھی ہم قدم نہ ہوا
یہ حوصلہ مرے معصوم ہم نفس میں نہ تھا


عجیب سحر کا عالم تھا اس کی قربت میں
وہ میرے پاس تھا اور میری دسترس میں نہ تھا


نہ جانے قافلۂ اہل دل پہ کیا گزری
یہ اضطراب کبھی نالۂ جرس میں نہ تھا


خبر تو ہوگی تجھے تیرے جاں نثاروں میں
کوئی تو تھا سر مقتل جو پیش و پس میں نہ تھا


سرورؔ اپنے چمن کی فضا ہے کیا کہئے
سکوت کا تو وہ عالم ہے جو قفس میں نہ تھا