ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے

ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
جان جاں سچ پہ کیوں اتنا اصرار ہے
سچ کی عظمت سے کب ہم کو انکار ہے
ہم بھی شاعر ہیں آخر اسی قوم کے
جس کا ہر فرد بکنے پہ تیار ہے
ہم ہیں لفظوں کے تاجر یہ بازار ہے
سچ تو یہ ہے گزرتے ہوئے وقت سے
فائدہ جو اٹھا لے وہ فن کار ہے
ہم نہ سقراط ہیں ہم نہ منصور ہیں
ہم سے سچ کی توقع ہی بیکار ہے
تیز تلوار سی وقت کی دھار ہے
اس لیے جان جاں اپنی تحریر سے
خوف تعزیر سے
سچے موتی کبھی ہم نہیں رولتے
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے


فصل آتی ہے جب حفظ پندار کی
سچ کے اظہار کی
ہم حقائق سے نظریں چرائے ہوئے
مصلحت کے جنازے اٹھائے ہوئے
سر جھکائے ہوئے
لوٹ جاتے ہیں ماضی کے صحراؤں میں
بیٹھ کر پھر غم ذات کی چھاؤں میں
سوچتے بھی نہیں بولتے بھی نہیں
سہمے سہمے ہوئے لوگ ملتے ہوں جب
ہر طرف زخم کے پھول کھلتے ہوں جب
جان جاں کم سے کم ایسے موسم میں ہم
حرف حق تو کجا لب نہیں کھولتے
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے