خواب دیکھتا ہوں

میں اک حسیں خواب دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
وہ کشت ویراں
کہ سالہا سال سے
جو ابر کو بھی ترس رہی تھی
وہ کشت ویراں
کہ جس کے لب خشک ہو چکے تھے
جو ابر نیساں کی منتظر تھی
جو کتنی صدیوں سے
باد و باراں کی منتظر تھی
میں دیکھتا ہوں
اس اپنی مغموم کشت ویراں پہ
کچھ گھٹا نہیں
جو آج لہرا کے چھا گئی ہیں
یہ سرد ہوا کے جھونکے
نہ رک سکے جو کسی کے روکے
ذرا تمازت جو کم ہوئی ہے
حیات کچھ محترم ہوئی ہے
میں اک حسیں خواب دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ جیسے شب کی سیاہ چادر
سمٹ رہی ہے
وہ تیرگی
ہم جسے مقدر سمجھ چکے تھے
وہ چھٹ رہی ہے
میں دیکھتا ہوں
کہ صبح فردا
ہزار رعنائیاں جلو میں
لیے مسکرا رہی ہے
میں دیکھتا ہوں
جبیں افق کی جو نور فردا سے ہے منور
سحر کا پیغام دے رہی ہے
جو روشنی کا
جو زندگی کا
ہر اک کو انعام دے رہی ہے